Tuesday, February 16, 2010

Shehzadi ke Sath Mazay

دوستو! میرا نام ندیم ہے۔ مجھے آپ جانتے ہی ہیں اور اس سے پہلے آپ میرے دو واقعات “صدف کا ریپ” اور “گانڈ مارنے اور مروانے کے درست طریقے” پڑھ چکے ہیں۔آج میں ایک اور سچا واقعہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔
میں 28 سال کا ہوں اور ایک پرائیویٹ فرم میں جاب کرتا ہوں۔ میری شادی ہو چکی ہے اور میں اپنی بیوی نجمہ کے ساتھ اسلام آباد میں رہ رہا تھا۔
دو مہینے پہلے میری ماموں زاد بہن 12ویں کے امتحانات کے بعد ہمارے ساتھ رہنے آ گئی۔ اس کو ابھی سپوکن انگلش کا ایک کورس کرنا تھا پھر نمل یونیورسٹی سے بی اے۔ اس کے ممی پاپا اسے ہمارے گھر چھوڑ کر چلے گئے اور مجھے اس کا گارڈین بنا گئے۔ بی اے میں داخلہ کے بعد اسے ہاسٹل ملنے پر اسے ہاسٹل جانا تھا۔ اس کا نام نوشین تھا، 18 سال کی نوشین کی پر جوانی خوب چڑھ رہی تھی۔ 5’5″ کی نوشین کا رنگ تھوڑا سانولا تھا، پر اکہرے بدن کی نوشین کی فگر میں غضب کا نشہ تھا۔ 34 22 34 کی نوشین کو جب بھی میں دیکھتا میرا لنڈ کھڑا ہونا شروع ہو جاتا۔ حالانکہ میں دکھاوا کرتا کہ مجھے اس کے بدن میں کوئی دلچسپی نہیں ہے، پر مجھے پتا تھا کہ نوشین کو بھی میری نظر کا احساس ہے۔ تقریباً ایک مہینے میں ہم لوگ کافی گھل مل گئے۔ انہی دنوں میری بیوی نجمہ کو اپنے میکے جانا پڑا اور میں نے نوشین کو چودنے کا ارادہ نجمہ کے واپس آنے تک ملتوی کر دیا۔
میرے دونوں قریبی دوستوں سلیم اور انور سے بھی نوشین خوب فرینڈلی ہو گئی تھی۔ وہ دونوں لگ بھگ روز میرے گھر آتے تھے۔
مئی کے دوسرے سوموار کے ایک دوپہر کی بات ہے۔ نوشین کوچنگ کلاس گئی تھی اور ہم تینوں دوست بیٹھ کر بیئر پی رہے تھے۔ بات کا موضوع تب نوشین ہی تھی۔ میرے دونوں دوست اس کی فگر اور باڈی کی بات کر رہے تھے، پر میں چپ تھا۔
انور نے مجھے چھیڑا کہ میں ایکدم بیوقوف ہوں کہ اب تک اس کی جوانی بھی نہیں دیکھی ہے۔ میرے یہ کہنے پر کہ وہ مجھے بھائی بولتی ہے، دونوں ہنسنے لگے اور کہا کہ ٹھیک ہے، ہم لوگ کوشش کر کے اس کو تھوڑا ڈھیٹ بنائیں گے، پر ان دونوں نے شرط رکھی کہ میں بھی موقع ملتے ہی اسے چود دوں گا اور پھر ان دونوں کو یہ واقعہ بتاؤں گا۔
پھر انور بولا یار اس کی ایک پینٹی لا دو، تو میں ابھی مٹھ مار لوں۔
تبھی دروازے کی گھنٹی بجی اور نوشین گھر آ گئی۔ سفید شلوار اور پیلے چکن کے کرتے میں وہ غضب کی سیکسی دکھ رہی تھی۔ ہم سب کو بیئر کے مزے لیتے دیکھ وہ مسکرائی، سلیم نے اس کو بھی بیئر میں ساتھ دینے کو دعوت دی۔ میری توقع کے خلاف وہ ہم لوگوں کے ساتھ بیٹھ گئی۔
ہم لوگ ادھر ادھر کی بات کرتے ہوئے بیئر کا مزا لے رہے تھے۔ نوشین بھی خوب مزے لے رہی تھی۔
ایک ایک بوتل پینے کے بعد سلیم بولا کیوں نہ ہم لوگ تاش کھیلیں، وقت اچھا کٹے گا۔
سب کے ہاں کہنے پر میں تاش لے آیا اور تب سلیم بولا چلو اب آج کے دن کو فن ڈے بنایا جائے۔
نوشین نے ہاں میں ہاں ملائی۔
سلیم اب بولا ہم سب سٹریپ پوکر کھیلتے ہیں، اگر نوشین ہاں کہے تو! ویسے بھی اب آج فن ڈے ہے۔
نوشین کا جواب تھا اگر بھیا کو پریشانی نہیں ہے تو مجھے بھی کوئی پریشانی نہیں ہے۔
اب انور بولا نوشین! ہم لوگوں کے بدن پر چار چار کپڑے ہیں، تم اپنا دوپٹا ہٹاؤ نہیں تو تمہارے پانچ کپڑے ہوں گے۔
نوشین مزے کے موڈ میں تھی، بولی نہیں، اکیلی لڑکی کھیلوں گی، تین لڑکوں کے ساتھ مجھے اتنی تو چھوٹ ملنی چاہیے۔
سلیم فیصلہ کرتے ہوئے بولا ٹھیک ہے، پر ہم لڑکوں کے کپڑے تم کو اتارنے ہوں گے، اور تمہارا کپڑا وہ لڑکا اتارے گا جس کے سب سے زیادہ پوائنٹس ہوں گے۔
میں سب سن رہا تھا، اور من ہی من میں خوش ہو رہا تھا۔ اب مجھے لگ رہا تھا کہ میں سچ میں بیوقوف ہوں، نوشین تو پہلے سے ہی مست لونڈیا تھی۔
میرے سامنے انور تھا، نوشین میرے داہنے اور سلیم میرے بائیں تھا۔ پہلا گیم انور ہارا اور گیم کے مطابق نوشین نے انور کی قمیض اتار دی۔
دوسرے گیم میں میں ہار گیا، اور نوشین مسکراتے ہوئے میرے قریب آئی اور میری ٹی شرٹ اتار دی۔ پہلی بار نوشین کا ایسا لمس مجھے اچھا لگا۔
تیسرے گیم میں نوشین ہار گئی اور سلیم کو اس کا ایک کپڑا اتارنا تھا۔ سلیم نے اپنے داہنے ہاتھ سے اس کا دوپٹا ہٹا دیا اور اپنے بائیں ہاتھ سے اس کی ایک چونچی کو ہلکے سے چھو لیا۔ میرا لنڈ اب سرسرانے لگا تھا۔
اگلے دو گیم سلیم ہارا اور اس کے بدن سے ٹی شرٹ اور بنیان دونوں اتر گئے۔
اس کے بعد والی گیم میں ہارا اور میرے بدن سے بھی بنیان ہٹ گئی اور پھر جب سلیم ہارا تو اب پہلی بار کسی کا کمر کے نیچے سے کپڑا اترا۔ نوشین نے خوب خوش ہوتے ہوئے سلیم کی جینز کھول دی۔ میکرومین برف میں سلیم کا لنڈ ہارڈ ہو رہا ہے، صاف دکھ رہا تھا۔
ایک نئی بیئر کی بوتل تبھی کھلی۔ اس کے مزے لیتے ہوئے پتے بٹے، اور اس گیم میں نوشین ہار گئی، اور انور کو اس کے بدن سے کپڑا ہٹانا تھا۔ نوشین اب میرے سامنے انور کی طرف پیٹھ کر کے کھڑی ہو گئی، جس سے انور کو اس کے کرتے کی زپ کھولنے میں سہولت ہو۔
انور نے پہلے اپنے دونوں ہاتھوں کو پیچھے سے اس کی چونچی پہ لا کر دو تین بار چونچیاں مسلیں، اور پھر اس کے کرتے کی زپ کھول کے کرتے کو اس کے بدن سے الگ کر دیا۔ اب نوشین صرف شلوار اور برا میں ہمارے سامنے تھی۔ ایک بار ہماری نظر ملی، وہ مجھے دیکھ کر مسکرائی۔ گلابی رنگ کی برا میں کسی اس کی شاندار چھاتی کسی کو بھی مست کر سکتی تھی۔ اس کا ایکدم سپاٹ پیٹ اور گہری ناف دیکھ ہم تینوں لڑکوں کے منہ سے ایک ایئیئیس سس نکلتے نکلتے رہ گیا۔
وہ ایکدم مست دکھ رہی تھی۔ اس کی ناف کے ٹھیک نیچے ایک کالا تل دیکھ سلیم بول اٹھا بیوٹی سپاٹ بھی شاندار جگہ پر ہے نوشین۔ اتنی جاندار فگر ہے تمہاری، تھوڑا اپنے بدن کا خیال رکھو۔
نوشین بولی کتنا ڈایٹنگ کرتی ہوں ندیم بھائی سے پوچھیے۔
سلیم اب بولا میں تمہارے انڈر آرم کے بالوں کے بارے میں کہہ رہا ہوں۔
سچ نوشین کے بغلوں میں خوب سارے بال تھے، کافی بڑے بھی۔ ایسا لگتا تھا کہ نوشین کافی دنوں سے ان کو صاف نہیں کیا ہے۔ پہلی بار میں ایک جوان لڑکی کی بغلوں میں اتنے بال دیکھ رہا تھا اور اپنے دوستوں کو دل میں تھینکس بول رہا تھا کہ ان کی وجہ سے مجھے نوشین کے بدن کو دیکھنے کا موقع مل رہا تھا۔
نوشین پر بیئر کا میٹھا نشا ہو گیا تھا اور وہ اب خوب مزے لے رہی تھی ہم لڑکوں کے ساتھ۔ ویسے نشا تو ہم سب پر تھا بیئر اور نوشین کی جوانی کا۔
نوشین مسکرائی اور بولی چلیے اب پتے بانٹیے بھیا۔ پتے بانٹنے کی میری باری تھی۔
برا میں کسے ہوئے نوشین کی جاندار چونچیوں کو ایک نظر دیکھ کر میں نے پتے بانٹ دیے۔ یہ گیم میں ہار گیا۔ مجھے تھوڑی جھجھک تھی۔
پر جب نوشین خود میرے پاس آکر بولی بھیا کھڑے ہو تا کہ میں تمہاری پینٹ اتاروں!
تب میں بھی مست ہو گیا۔
میں نے کہا اوکے، جب گیم کا یہی اصول ہے تب پھر ٹھیک ہے، کھول دو میری پینٹ، اور میں کھڑا ہو گیا۔
نوشین نے اپنے ہاتھ سے میرے برموڈا کو نیچے کھینچ دیا اور جب جھک کر اس کو میرے پیروں سے باہر کر رہی تھی تب میری نظر اس کے برا میں کسی ہوئی چونچیوں پر تھی، جو اس کے جھکے ہونے سے تھوڑا زیادہ ہی دکھ رہی تھی۔
انور نے اپنا ہاتھ آگے کیا اور نوشین کی شلوار کے اوپر سے ہی اس کے چوتڑ پر ایک ہلکا سا چپت لگایا۔ وہ چونک گئی، اور ہم سب ہنسنے لگے۔
میرا لنڈ فرینچی میں ایکدم کھڑا ہو گیا تھا اور نوشین کو بھی یہ پتا چل رہا تھا۔
اگلی بازی انور ہارا، اور اس کی بھی بنیان اتر گئی۔ پر جب تک نوشین اس کی بنیان اتار رہی تھی، وہ تب تک اس کے ننگے پیٹ اور ناف کو سہلاتا رہا تھا۔
اگلی بازی میں جیتا اور نوشین ہار گئی۔ پہلی بار مجھے نوشین کے بدن سے کپڑا اتارنے کا موقع ملا۔ نوشین میرے سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔ میرے دل میں جوش تھا پر تھوڑی جھجھک بھی تھی۔ مجھے نوشین کی شلوار کھولنی تھی۔
میں نے ابھی شلوار کا ازاربند پکڑا ہی تھا کہ انور بولا تھوڑا سنبھل کے! جوان لڑکیوں کی شلوار کے اندر بم ہوتا ہے، دھیان رکھنا ندیم۔
میں جھینپ گیا، نوشین بھی تھوڑا جھینپی، پر پھر سنبھل گئی اور بولی میں کوئی دہشت گرد نہیں ہوں، سیدھی سادھی لڑکی ہوں بھائی، ایسا کیوں بولتے ہیں انور بھیا۔
میں تب تک اس کا ناڑا کھول کے اس کی شلوار نیچے کھسکا چکا تھا، اور وہ اپنے پیر اٹھا کے اس کو پوری طرح سے ٹانگوں سے نکالنے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے کندھوں کو پکڑ کر اپنے پیر اوپر کر رہی تھی، تا کہ میں اس کی شلوار پوری طرح سے اتار سکوں۔
اب جب میں نے نوشین کو دیکھا تو میرا لنڈ ایک بار پوری طرح سے تن گیا۔ گلابی برا اور میرون پینٹی میں نوشین ایک مستانی لونڈیا لگ رہی تھی۔ اس کا سانولا سلونا بدن میرے دوستوں کے بھی لنڈ کا برا حال بنا رہا تھا۔
اس کے بعد کی بازی انور پھر ہارا اور نوشین نے اس کا پینٹ کھول دیا۔ اس بار نوشین کے چوتڑ پہ سلیم نے طبلا بجا دیا، پر اب نوشین نہیں چونکی، وہ شاید سمجھ گئی تھی کہ اکیلی لڑکی ہونے کی وجہ سے اس کو اتنی چھوٹ ہم لڑکوں کو دینی ہوگی۔
اب جب کہ ہم سب اپنے انڈرگارمینٹس میں تھے، سلیم بولا کیا اب ہم لوگ گیم روک دیں؟ کیونکہ اس کے بعد الف ننگا ہونا پڑے گا۔
اس نے اپنی بات ختم بھی نہیں کی تھی کہ انور بولا کوئی بات نہیں، ننگا ہونے کے لیے ہی تو سٹریپ پوکر کھیلا جاتا ہے۔
میں دل سے چاہ رہا تھا کہ کھیل نہ رکے اور میں ایک بار نوشین کو پوری ننگی دیکھوں۔
سلیم نے نوشین سے پوچھا بولو نوشین، تم اکیلی لڑکی ہو، آگے کھیلوگی؟
اس پر تو مزے کا نشا تھا۔ وہ چپ چاپ مجھے دیکھنے لگی، تو انور بولا ارے نوشین تم اپنے اس بھیا کی فکر چھوڑو۔ اگر تم میری بہن ہوتی، تو جتنے دن سے تم اس کے ساتھ ہو، اتنے دن میں یہ سالا تم کو سو بار سے کم نہیں چودتا۔ دیکھتی نہیں ہو، اس کا لنڈ ابھی بھی ایکدم کھڑا ہے، سوراخ میں گھسنے کے لیے۔
اور اس نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور انڈرویئر کے اوپر سے میرے لنڈ پہ پھیر دیا۔ میں اس بات کی امید نہیں کر رہا تھا، چونک گیا۔ اور سب لوگ ہنسنے لگے، نوشین بھی میری حالت پہ کھل کر ہنسی۔ بیئر کا ہلکا نشا اب ہم سب پر تھا۔
اگلی بازی انور ہار گیا اور نوشین مسکراتے ہوئے اس کو دیکھی۔ انور اپنی ہی مستی میں تھا بولا آؤ، کرو ننگا مجھے۔ تمہارے جیسی سیکسی لونڈیا کے ہاتھوں تو سو بار میں ننگا ہونے کو تیار ہوں۔
اور جب نوشین نے اس کا انڈرویئر کھولا تو اس کا 7″ کا پھنپھناتا ہوا لنڈ کھلے میں آ کر اپنا نظارا دینے لگا۔ انور بھی نوشین کو اپنی بانہوں میں کس کر اس کے ہونٹ چومنے لگا اور اس کا لنڈ نوشین کے پیٹ پہ چوٹ مار رہا تھا۔ تین چار چمیوں کے بعد اس نے نوشین کو چھوڑا تب وہ دوبارہ اپنی جگہ پہ بیٹھی۔
انور سائیڈ میں بیٹھ کر اپنے لنڈ سے کھیلنے لگا۔ وہ ساتھ میں اپنا بیئر کا گلاس بھی لے گیا۔
اگلے گیم میں نوشین ہار گئی اور مجھے اس کی برا کھولنی تھی۔ وہ آرام سے میرے سامنے آ کر میری طرف پیٹھ کر کے کھڑی ہو گئی، اور پیٹھ سے اپنے بال سمیٹ کر سامنے کر لیے، تا کہ میں آرام سے اس کے برا کی ہک کھول سکوں۔
میں نے پیار سے برا کا ہک کھولا، اور وہ اب سیدھی ہو گئی، تا کہ میں اس کی چونچیوں پر سے برا نکال سکوں۔ میں نے جونہی برا ہٹایا، نوشین کی چھوٹی چھوٹی گول گول نوکیلی چونچیاں سر ابھارے میرے سامنے تھیں۔ اف کیا نظارا تھا۔میں ساکت کھڑا تھا۔
انور پہ سچ مچ تھوڑا نشا ہو گیا تھا، بولا ابے سالے ندیم، اب تو چھو لے اس کو۔ تیری بہن ہے، بار بار چونچی ننگی کر کے نہیں دے گی تیرے کو۔
اس کی بات سن کر مجھے خوب مزا آیا، پر نوشین کو پتا نہیں کیا لگا، وہ بولی دل چاہتا ہے تو چھو لیجیے ندیم بھائی۔
میں سمجھ گیا کہ اب وہ بھی ہلکے نشے میں تھی۔ میں نے دو چار بار اس کی چونچی پہ ہاتھ پھیرا۔
اگلی بازی میں ہار گیا۔ نوشین خوب خوش ہوئی اور زور سے بولی ہاں اب کروں گی آپ کو ننگا ندیم بھائی۔
میں کھڑا ہو گیا اور اس نے میری فرینچی کو نیچے کر دیا۔
میرا پھنپھنایا ہوا لنڈ آزاد ہو کر خوش ہو گیا۔ میرا ٹوپا سامنے کو کھڑا تھا اور سلامی دے رہا تھا۔
انور کیسے چپ رہتا، وہ بول پڑا نوشین کھیل لو اس لنڈ سے، تمہارے بھیا کا ہے، ہمیشہ نہیں ملے گا دیکھنے کے لیے۔
سلیم بھی بولا کیوں، میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی۔
اور دونوں ہنسنے لگے۔
نوشین میرے لنڈ کو لے کر سہلانے لگی۔ تب سلیم دوبارہ بولا ہاتھ سے لنڈ کے ساتھ تو لڑکے کھیلتے ہیں نوشین! لڑکی تو لنڈ کا لالی پاپ بنا کر چوستی ہیں۔
نوشین سے میں یہ امید نہیں کر رہا تھا مگر وہ تو فوراً ہی میرے لنڈ کو اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگی۔ دو چار بار کے بعد اس نے برا سا منہ بنایا، شاید اس کو اچھا نہیں لگا تو وہ میرا لنڈ چھوڑ کر سلیم کے سامنے بیٹھ گئی۔
سلیم بولا اب کی بازی میں کھیل ختم ہو جائے گا۔ اس لیے جو دوسرے کو ننگا کرے گا وہ ایک منٹ تک اس کے پرائیویٹ پارٹ کو چوسے گا۔ منظور ہے تو بولو ورنہ یہیں پہ کھیل ختم کرتے ہیں۔
نوشین کی آنکھیں لال ہو گئی تھی۔ وہ اب نشے میں تھی۔ اس نے پتے اٹھا لیے اور آخری بازی بٹ گئی۔ میں دل سے چاہ رہا تھا کہ نوشین ہار جائے تا کہ اس کی چوت کا بھی آج نظارا ہو جائے۔
اور میری چاہت رنگ لائی۔ سلیم جیت گیا اور نوشین ہار گئی۔ سلیم نے اب نوشین کو اپنی بانہوں میں اٹھا کر اس کو سینٹر ٹیبل پہ لٹا دیا اور اس کے دونوں پیروں کے بیچ آ گیا۔ خوب پیار سے اس کی مخملی رانوں کو سہلایا اور پھر مجھے اور انور کو پاس آنے کا اشارا دیا آ جاؤ بھائی لوگو، اب نوشین کی چوت کا دیدار کرو۔
میں تو کب سے بے چین تھا اس پل کے لیے۔
ہم تینوں دوست میز کو گھیر کر کھڑے ہو گئے۔ نوشین اب تک مسکرا رہی تھی۔ سلیم نے نوشین کی پینٹی کے الاسٹک سے نیچے کی جانب فولڈ کرنا شروع کیا۔ دوسرے ہی فولڈ کے بعد نوشین کی جھانٹوں کی جھلک دکھائی دینے لگی۔ دھیرے دھیرے اس کی چوت کی جھلک بھی دکھائی دینے لگی۔
سلیم نے اس کے پیروں کو اوپر کی طرف کر کے پینٹی نیچے سے پیروں سے نکال دی اور پھر دھیرے دھیرے اس کی ٹانگوں کو تھوڑا سائیڈ کی طرف کھول دیا اور اب نوشین کی چوت کی پھانکیں ایکدم سامنے دکھ رہی تھیں۔ نوشین کی چوت پہ 2″ لمبے بال تھے اور ان بڑی بڑی جھانٹوں کی وجہ سے اس کے چوت کی دانہ صاف نہیں دکھ رہا تھا۔
سلیم نے اس کی چوت پہ ہاتھ پھیرا اور پھر اس کی جھانٹوں کو ہٹا کر ہم دونوں کو اس کی چوت کے پورے نظارے کرائے۔
جب نوشین کی نظر مجھ سے ملی تب اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنا چہرا ڈھک لیا۔ پر اب مجھے اس کی شرم کی پرواہ نہیں تھی۔ ہم میں سے کسی کو بھی نہیں تھی۔
نوشین بولی بس اب مجھے چھوڑ دیجیے۔
پر سلیم نے اس کو یاد کرایا کہ ابھی تو ایک منٹ تک وہ اس کی چوت کو چوسے گا۔
اس کے بعد وہ نوشین کی چوت چوسنے میں لگ گیا، انور مٹھ مارنے لگا اور میں سب چیزیں سمیٹنے لگا۔ نوشین کے منہ سے سسکاریاں نکلنے لگی تھیں۔
نئی نئی جوانی چڑھی تھی بیچاری پہ، اس لیے وہ اتنا مزا پا کر شاید جھڑ گئی اور بولی اب بس، اب مجھے پیشاب آ رہا ہے۔
پر سلیم تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ نوشین نے دو تین بار اپنے بدن کو سلیم کی گرفت سے چھڑانا چاہا، پھر اسی میز پر ہی سلیم کے چہرے پہ سو سو کرنے لگی۔ سلیم نے اب اپنا چہرا ہٹا لیا۔
نوشین نے اپنا بدن ایکدم ڈھیلا چھوڑ دیا اور خوب پیشاب کیا، پھر پر سکون ہو گئی۔
دو منٹ ایسے ہی رہنے کے بعد اسے کچھ ہوش آیا اور تب وہ اٹھی اور پھر اپنے کپڑے اٹھا کر اپنے بیڈروم میں چلی گئی۔
ہم لوگوں نے بھی اپنے کپڑے پہن لیے۔
سلیم بولا اب تھوڑی دیر اس کو اکیلا چھوڑ ورنہ وہ رونے لگے گی، جب اس کو لگے گا کہ اس بے چاری کے ساتھ شراب کے نشے میں کیا کیا ہوا ہے۔
ہم لوگ اب پاس کی مارکیٹ کی طرف نکل گئے، نوشین تب باتھ روم میں تھی۔
چار دن آرام سے بیت گئے۔
نوشین کے ساتھ تاش کے بہانے ننگ پن کے کھیل کے بعد سلیم اور انور اس دوران گھر نہیں آئے، پر فون پر ہمیشہ مجھ سے پوچھا کہ میں نے اب تک نوشین کو چودا یا نہیں۔
مجھے اتنا ہونے کے بعد بھی ہمت نہیں ہو رہی تھی نوشین سے سیکس کے لیے کہنے کی۔ نوشین بھی ایسے تھی جیسے اس دن کچھ ہوا ہی نا ہو۔
کھیر، جب سلیم نے الٹی میٹم دے دیا کہ اگر آج میں نے نوشین کو نہیں چودا تو وہ اسے پٹا کے میرے سامنے چودے گا تب مجھے بھی جوش آ گیا، اور شام میں ڈنر ٹیبل پر میں نے نوشین سے کہا، “نوشین، آج رات میرے ساتھ سو جاؤ نا پلیز، اس دن کے بعد سے مجھے بہت بے چینی ہو رہی ہے۔ ”
یہ بات میں نے اپنا سر نیچے کر کے کھانا کھاتے ہوئے کہا۔
میری ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ میں نوشین سے نظریں ملاؤں۔
نوشین نے میرے جھجھک یا شرم کو سمجھ لیا اور پھر میرے پاس آ کر میرے سر کو اٹھایا اور کہا، “آج نہیں، دو تین دن بعد! ”
اور میرے ہونٹ چوم لیے۔
مجھ میں اب ہمت آ گئی اور میں نے پوچھا، “آج کیوں نہیں، دو تین دن بعد کیوں؟”
اب نوشین مسکراتے ہوئے میرے کان کے پاس سرگوشی کرتے ہوئے بولی، “تھوڑا سمجھا کرو ندیم بھائی! ابھی پیریڈز چل رہے ہیں، اسی لیے کہہ رہی ہوں دو تین دن بعد۔ تب تک اس سے کھیلو! ”
کہتے ہوئے اس نے اپنے پستانوں پر میرا ہاتھ رکھ دیا۔ میں خوش ہو گیا کہ چلو اب دو تین دن بعد نوشین جیسی ایک مست لونڈیا ملے گی چودنے کو۔
تیسرے دن جب میں آفس سے لوٹا تو نوشین ایکدم فریش لگ رہی تھی، مجھ سے بولی، “ندیم بھائی! آج کہیں باہر چلیے ڈنر کے لیے۔ ”
وہ تیار تھی۔ قریب ایک گھنٹے بعد ہم لوگ ایک چائنیز ریسٹورنٹ میں بیٹھے تھے۔ وہ میرے ساتھ ایسے برتاؤ کر رہی تھی جیسے وہ میری گرل فرینڈ ہو۔ مجھے بھی مزا آ رہا تھا۔ قریب 9 بجے جب ہم لوٹ رہے تھے تب نوشین نے مجھ سے کہا، “راستے میں کہیں سے کنڈوم خرید لیجیے گا ندیم بھائی۔ ”
یہ سن کے میرا لنڈ گرم ہونے لگا۔ میں نے بات ہلکے سے لیتے ہوئے پوچھا، “کیوں، آج رات میرے ساتھ سونا ہے کیا؟”
اور میں نے اس کا ہاتھ زور سے دبا دیا۔
وہ ایک قاتل مسکان کے ساتھ بولی، “آپ کے ساتھ بیڈ پہ جب میں رہوں گی، تب آپ سوئیں گے یا جاگیں گے؟”
میں نے اس کو گھورتے ہوئے کہا، “بہت گہری چیز ہو نوشین تم، ایکدم کتی چیز ہو بھئی۔ ”
وہ بھی پورے موڈ میں تھی، بولی، “آپ اور آپ کے دوستوں کا کیا ہے سب، ورنہ میں جب آپ کے پاس آئی تب تک مجھے ہیئر ریموور تک استعمال کرنا نہیں آتا تھا۔ ”
میں نے اس کے چوتڑوں پہ ایک چپت لگائی اور کہا، “ہاں، وہ تو اس دن تیری جھانٹیں دیکھ کر ہی پتا چل گیا تھا۔ تم فکر نہ کرو، بنا کنڈوم بھی میں جب کروں گا تو اپنا مال اندر نہیں باہر نکالوں گا۔ ”
اور ہم دونوں گھر آ گئے۔
نوشین بولی آپ چلیے، میں تیار ہو کر آتی ہوں۔
پر میرے لیے اب رکنا مشکل تھا، بولا، “اس میں تیار کیا ہونا ہے، ننگا ہونا ہے بس۔ ”
اور میں اپنے شرٹ کے بٹن کھولنے لگا۔ کچھ وقت میں ہی میں صرف اپنے فرینچی انڈرویئر میں تھا۔
نوشین پاس کھڑی دیکھ رہی تھی، بولی، “بہت بے چینی ہے کیا؟”
وہ مجھے چڑانے کے موڈ میں تھی۔ میں اس کی یہ ادا دیکھ مست ہو رہا تھا، پر اوپر سے بولا “اب جلدی سے آ اور پیار سے چدوا لے، ورنہ پٹخ کے چوت چود دوں گا۔ سالے یار لوگوں نے روز پوچھ پوچھ کر کان پکا دیے ہیں۔ ”
نوشین اب سٹپٹائی اور پوچھا، “کیا آپ اپنے دوستوں سے میرے بارے میں بات کرتے ہیں؟”
اس کے چہرے سے فکر دکھی تو میں نے سچ کہہ دیا، “سلیم اور انور روز پوچھتے ہیں، اس دن کا تاش کا کھیل بھی میرے اور تمہارے بیچ یہی کروانے کے لیے ہی تو تھا۔ اصل میں، جب سے تم آئی ہو اس دن سے وہ دونوں تیرے بدن کے پیچھے پڑے ہیں۔ ”
نوشین اب پر سکون ہوئی، “اچھا وہ دونوں، مجھے لگا کہ کوئی اور دوستوں کو بھی آپ نے بتایا ہے۔ کیا آپ آج رات کی بات بھی ان کو بتائیں گے؟”
میں نے دیکھا کہ اب سب ٹھیک ہے، سو سچ کہ دیا “ضرور، وہ ضرور پوچھیں گے، اور تب میں بتا دوں گا! ”
اور میں نے نوشین کو پاس کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور اس کے ہونٹوں کا رس پینے لگا۔
نوشین بھی مزے کر رہی تھی، ہم لوگ کوئی 5 منٹ تک صرف ہونٹ ہی چوستے رہے۔ نوشین کی سانس تھوڑی گہری ہو گئی تھی۔
میں نے نوشین کو کہا، “چلو اب بیڈ پر چلتے ہیں۔ ” اس نے ایک بچے کی طرح مچلتے ہوئے کہا، “میں خود نہیں جاؤں گی، گودی میں لے چلو مجھے۔ میں تم سے چھوٹی ہوں یا نہیں۔ ”
اسے بچوں کی طرح مچلتے دیکھ مجھے مزا آیا، بولا، “سالی، نخرا کر رہی ہے، چھوٹی ہے تو، ابھی دو منٹ میں جوانی چڑھ جائے گی! ” اور اس کو میں نے گودی میں اٹھا لیا۔
وہ میرے سینے سے لگ گئی اور بولی، “ایسے کبھی گودی لیتے کیا آپ، اگر میں نہ کہتی! ”
میں نے جواب دیا، “ارے تیرے جیسی مست لونڈیا اگر بولے تو اپنے سر پہ بٹھا کے لے جاؤں اسے! ”
میں نے اس کو اپنے بیڈ پہ لا کر پٹخ دیا۔ مجھے پیشاب آ رہا تھا، تو باتھ روم جاتے ہوئے میں نے کہا، “اب اتار اپنے کپڑے، اور ننگی ہو جا، جب تک میں آتا ہوں”۔
میں جب لوٹا تب بھی نوشین اپنے پورے کپڑوں میں بیڈ پر دکھی۔ میں تھوڑا چڑ گیا اس بات پر۔ میں بولا “کیا سالی نخرے کر رہی ہے، میرا لنڈ کھڑا کر کے۔ میرے سے کپڑے اتروانے ہیں تو آ ذرا لنڈ چوس میرا۔ ”
وہ بھی تھوڑا تنک کر بولی، “اچھا، تو اب میں آپ کی سالی ہو گئی۔ آپ دو بار مجھے سالی بول چکے ہیں!”
پھر مسکرانے لگی۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا، “تو کیا تم مجھے بہن چود بنانا چاہتی ہو؟”
اس بار وہ سیکسی انداز میں بولی، “آپ مجھے رنڈی بنا رہے ہو تو کوئی بات نہیں اور میں آپ کو بہن چود بھی نا بناؤں ؟”
اور وہ میرے سے چپک گئی۔ میں نے اس سے نظر ملا کے کہا، “میں تو تمہیں اپنی رانی بنا رہا ہوں جان، رنڈی نہیں۔ پر تمہارے لیے بہن چود، کیا تو جو بول وہی بن جاؤں گا میری پیاری نوشین۔ ”
میں پھر اس کے ہونٹ، گال چومنے لگا۔ وہ ساتھ دیتے ہوئے بولی، “تھینکس ندیم بھائی، پر مجھے تو رنڈی بننا پڑے گا اب۔ آپ کے دونوں دوست مجھے زیادہ دن چھوڑیں گے ہی نہیں! ”
میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی، “یہ بات تو ہے، نوشین، پر کوئی بات نہیں ایک دو بار سے زیادہ وہ لوگ نہیں کریں گے۔ میں جانتا ہوں ان کو! ”
نوشین تھوڑا گرم ہونے لگی تھی، بولی، “اب چھوڑو یہ سب بات اور چلو شروع کرو ندیم بھائی! ”
مجھے یہ سن کر مزا آیا، “کیا شروع کرے تمہارا ندیم بھائی، ذرا ٹھیک سے تو کہو میری چھوٹی بہنا۔ ”
میرا ہاتھ اب اس کی داہنی چونچی کو کپڑے کے اوپر سے ہی مسل رہا تھا۔ ایک بار پھر میں نے پوچھا، “بول نا میری بہنا، کیا شروع کرے تمہارا بھیا! بات کرتے ہوئے زیادہ مزا آے گا میری جان۔ اس لیے بات کرتی رہو، جتنی گندا باتیں بولوگی، تمہاری چوت اتنا زیادہ پانی چھوڑے گی۔ اب جلدی بولو بہن، کیا شروع کروں میں؟”
اس کی آنکھیں بند تھی، بولی “میری چدائی”
چدائی یا تیری چوت کی چدائی؟
“میری چوت کی چدائی”، وہ بولی۔
میرے دونوں ہاتھ اب اس کے چوتڑوں پر تھے، میں ہلکے ہلکے انہیں دبا رہا تھا۔
پھر میں نے اس کو بیڈ پر بٹھا دیا، اور اس کی کرتی دھیرے دھیرے سر کے اوپر سے اتار دی۔ اس کے بعد میں نے اس کی شلوار کھول دی۔ اب نوشین میرے سامنے ایک سفید برا اور کالی پینٹی میں تھی۔
میں نے کہا، “اب ٹھیک ہے، آؤ لنڈ چوس کر ایک دفعہ منی نکال دو! ”
نوشین اب مذاق کے موڈ میں تھی، اپنی گول گول آنکھیں نچاتے ہوئے بولی، “کس کا لنڈ چوسوں، مجھے تو کوئی لنڈ دکھ نہیں رہا۔ ”
مجھے اس کی یہ ادا بھا گئی، میں نے گندے تریکے سے کہا، “اپنے پیارے بھیا کا لنڈ نکالو اور پھر اس کو منہ سے چوسو، میری رنڈی بہنا! اپنے بھیا کو سیاں بنا کے چدواؤ اپنی چوت اور پھر اپنی گانڈ بھی مرواؤ! ”
میں سیدھا لیٹ گیا۔ نوشین نے میرا لنڈ چوسنا شروع کر دیا۔ میں نے اس کو لنڈ سے کھیلنا سکھایا اور وہ جلدی ہی سمجھ گئی اور مجھے مزے دینے شروع کر دیے۔ کوئی 10 منٹ چسانے کے بعد میرا لنڈ جب جھڑنے والا تھا، میں نے نوشین کو کہا کہ وہ تیار رہے اور پھر میں اس کے منہ میں جھڑ گیا۔ میرے کہنے سے اس نے میرا سارا ویرے پی لیا۔
اب میں نے اس کی برا اور پینٹی کھول دی۔ کالی کالی جھانٹوں سے بھری ہوئی اس کی چوت کا ایک بار پھر درشن کر میں نہال ہو گیا۔ جیسے ہی میرے ہاتھ نوشین کی چوت کی طرف گئے، وہ بولی، “بھیا، کچھ ہوگا تو نہیں۔ ڈر لگ رہا ہے، کہیں بدنامی نا ہو جائے۔ ”
میں نے سمجھاتے ہوئے کہا، “کچھ نہیں ہوگا۔ آج تک جب تمہاری بدنامی نہیں ہوئی تو اب کیو ڈر رہی ہو؟”
اس کا جواب سن کے میری خوشی کا ٹھکانا نہیں رہا۔ وہ بولی تھی، “آج پہلی بار کرواؤں گی، اسی لیے ڈر رہی ہوں۔ ”
میں بولا “کیا، کیا تم کنواری ہو اب تک؟” اس کے ہاں کہنے پر مجھے یقین نہیں ہو رہا تھا۔ میں نے بول ہی دیا، “مجھے یقین نہیں ہو رہا۔ ایک کنواری لڑکی ہوتے ہوئے تم اس دن تین تین جوان لڑکوں کے سامنے ننگی ہو کر کھیل رہی تھی؟”
وہ ہنستے ہوئے بولی، “اس میں یقین نہ کرنے والی بات کیا ہے؟ آپ تینوں مجھ پر لائن مار رہے تھے کئی دن سے، سو اس دن میں بھی سوچا کہ چلو آج لائن دے دیتی ہوں، بس۔ آپ لوگ کو مزا آیا تو مجھے بھی تو مزا آیا۔ ”
میں ہنس دیا، “بہت کتی چیز ہے تو بہنا۔ چل لیٹ، ذرا تیری چوت تو دیکھوں، کتنی کنواری کلی ہے تو! ”
اور میں نے اس کی چوت کی پھانکیں کھول کے اندر کی گلابی جھلی کو دیکھا۔ سالی سچ میں ابھی تک کنواری تھی۔ سانولے بدن کی نوشین کی چوت تھوڑی سانولی تھی، جس کی وجہ سے اس کی چوت کا پھول کچھ زیادہ ہی گلابی دکھ رہا تھا۔ قریب 10 منٹ تک اس کی چونچی اور چوت کو چومنے چاٹنے کے بعد میں نے اس کی ٹانگوں کو چوڑا کر کے اس کی چوت کو کھول دیا اور خود بیچ میں بیٹھ کے لنڈ کو نوشین کی چوت کی پھانک پر سیٹ کر لیا۔ مزے سے نوشین کی آنکھ بند تھی۔ وہ اب صرف آہ آہ آہ سی سی سی جیسا کر رہی تھی۔
میں نے نوشین سے پوچھا، “تیار ہو نوشین رانی چدوانے کے لیے؟ میرا لنڈ تمہاری چوت کو چما لے رہا ہے۔ کہو تو پیل دوں اندر اور پھاڑ دوں تمہاری چوت کی جھلی؟ بنا دوں تمہیں لڑکی سے عورت؟ کر دوں تمہارے کنوارپن کا خاتمہ؟ بولو جان، بولو میری رانی، بول میری بہنا، چدوائے گی اپنے بھیا کے لنڈ سے اپنی چوت؟”
اب اس سے رہا نہیں جا رہا تھا، وہ بول پڑی، “ہاں میرے بھیا، چود دو میری چوت اپنے لنڈ سے۔ بنا دو مجھے عورت۔ اب مجھے کنواری نہیں رہنا۔ ”
میں اپنا لنڈ پیلنے لگا وہ تھوڑا کسمسائی، شاید اس کو درد ہو رہا تھا۔ پر میں نہیں رکا، اس کی گیلی چوت میں لنڈ گھسیڑتا چلا گیا۔ نوشین تڑپ اتھی اور بلک بلک کر رونے لگی۔ وہ روتے روتے ثیخ رہی تھی “بس بس اب بس کریں ندیم بھائی۔۔۔ آہ ہ ہ ہ پلیز اب اور نہیں کریں اوہ ہ ہ ہ ہ ہ میں مر جاؤں گی مجھے چھوڑ دیں۔۔۔ اوہ ہ ہ ہ امی میں مری۔۔۔ کوئی مجھے بچائے ہائے ے ے ے ے ۔۔۔ بھیااااااا بس س س س س آہ ہ ہ ہ ہ
مگر میں نے اس کی چیخوں اور اور سسیکوں کی کوئی پرواہ نہ کی اور اس کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے بند کر دیا۔ اب اس کی چیخیں اوغ اوغ کی گھٹی گھٹی آوازوں میں بدل گئی تھیں۔ میں دھکے مارتا چلا گیا۔
آخر کار اس کا درد کم ہوا اور وہ مزے میں ڈوب کر بڑبڑانے لگی “ندیم بھائی! کر دو میرے کنوارپن کا خاتمہ آج۔ میری چوت کو جوانی کا مزا دو میرے بھیا، لوٹ لو میری جوانی کو اور چود کر بنا دو مجھے رنڈی۔ چودو مجھے بھیا، خوب چودو مجھے۔ میری جوانی کا رس لوٹو ندیم بھائی۔ ”
میں جوش میں چودتا جا رہا تھا۔ ہم دونوں ساتھ ساتھ بولتے جا رہے تھے۔ میں بول رہا تھا، “چد سالی چد۔ اب پھٹ گئی تیری چوت کی جھلی۔ گیا تیرا کنوارپن۔ لوٹو مزا اپنی جوانی کا۔ سالی ابھی تھوڑی دیر پہلے بچی بنی ہوئی تھی۔ گودی میں گھوم رہی تھی۔ اب اسی چوت سے بچے پیدا کرے گی تو میری بہنا۔ میں تمہیں چود کر بچے پیدا کروں گا۔ چدو سالی چدو، خوب چدوا۔ ”
نوشین بھی بڑبڑا رہی تھی، “ابھی بچا نہیں۔ ابھی مجھے اپنے چوت کا مزا لوٹنا ہے۔ خوب چدواؤں گی۔ جوانی کا مزا لوٹوں گی۔ پھر بچے پیدا کروں گی۔ آآہہ چودو اور چودو مجھے۔ رنڈی بنا کے چودو۔ بیوی بنا کے چودو۔ سالی بنا کے چودو۔ بہن بنا کے چودو، نہیں بہن تو ہوں ہی۔ اور آپ بہن چود ہو۔ ندیم بھائی، بہن چود بھیا، چودو اپنی چھوٹی بہن کو۔ ” میں نے اب اس کو پلٹ دیا اور پیچھے سے اس کی چوت میں لنڈ پیل دیا اور ایک بار پھر چدائی چالو ہو گئی۔ اب ووہ تھک کر نڈھال ہو گئی تھی، میں نے 8 ۔ 10 زور کے دھکے لگائے اور پھر میں بھی چھوٹ گیا۔ میں نے اپنا لنڈ باہر نکال لیا تھا، میرا سارا مال اس کے مموں پر پھیل گیا۔
نوشین میرے نیچے پیٹ کے بل بیڈ پہ تھی اور میں اس کے اوپر تھا۔ میرا لنڈ اس کے گانڈ کی دراڑ پر چپکا ہوا تھا۔ ہم دونوں زور زور سے ہانپ رہے تھے، جیسے میراتھن دوڑ کر آئے ہوں۔
تبھی گھڑی نے 11 بجے کا گھنٹا بجایا۔
میں نے نوشین سے کہا، “اب گانڈ مروانے کو تیار ہو جاؤ”
ووہ ہانپتے ہوئے بولی، “نہیں بھائی! اب اور کچھ نہیں، بس سونا ہے۔۔۔ کل مار لیجیے گا گانڈ بھی”
اور اس نے کروٹ بدل لی۔ میں بھی اس کے ننگے بدن کے ساتھ چپک ننگا ہی سو گیا۔
اگلے روز میں نے نوشین کی گانڈ بھی ماری اور اس کے بعد اسے سلیم اور انور سے بھی چدوانا پڑا۔ لیکن یہ سب اگلی بار۔۔۔
اگر اسلام آباد یا راولپنڈی کی کسی لڑکی یا عورت کو سیکس کی خواہش ہو تو بلا جھجک مجھ سے میرے ای میل پر رابطہ کر سکتی ہے۔ مکمل رازداری کی ضمانت دیتا ہوں۔۔

صدف کا ریپ


میری عمر تب 22 سال تھی اور ندیم 25 سال کے تھے۔ ہماری شادی کو دو سال ہونے کو آئے تھے۔ تبھی اسلام آباد کے خوبصورت مقام پر میرے شوہر کا تبادلہ ہوا۔ ہم دونوں ایسی جگہ پر بہت خوش تھے۔ اسلام آباد کی ہری بھری وادیوں کا پر فضا مقام اور جوان دلوں کا سنگم۔۔۔ کس کو نہ لبھا لے؟ ہمیں کمپنی کی طرف سے کوئی گھر نہیں ملا تھا، اس لیے ہم نے ان کے دفتر سے تھوڑی ہی دور ایک مکان کرائے پر لے لیا تھا۔۔۔ جس کا کرایہ ہمیں کمپنی کی طرف سے ہی ملتا تھا۔ گھر میں کام کرنے کے لیے ہم نے ایک نوکرانی رکھ لی تھی۔ اس کا نام صدف تھا۔ اس کی عمر لگ بھگ 16 سال ہوگی۔ چڑھتی جوانی، خوبصورت، سندر، سیکسی فگر، گوری دودھیا رنگت، بدن پر نو خیز جوانی کےمخروطی ابھار اور چکنا پن جھلکتا تھا۔
ندیم تو پہلے دن سے ہی اس پر فدا تھا۔ مجھ سے اکثر وہ اس کی تعریفیں کرتا رہتا تھا۔ میں اس کے دل کی بات اچھی طرح سمجھتی تھی۔ ندیم کی نظریں اکثر اس کے بدن کا معائنہ کرتی رہتی تھیں۔۔۔ شاید اندر تک کا نظارا کرتی تھیں۔ اس کے ابھار چھوٹے چھوٹے مگر نکیلے تھے۔ اس کے ہونٹ پتلے لیکن پھول کی پنکھڑیوں جیسے تھے۔ میں بھی اس کی کچی جوانی دیکھ دیکھ کر حیران ہوتی تھی اور سوچتی تھی کہ کون خوش قسمت ہو گا جو اسے پہلی دفعہ چودے گا۔
ایک دن ندیم نے رات کو چدائی کے وقت مجھے اپنے دل کی بات بتا ہی دی۔ اس نے کہا “نجمہ۔۔۔ صدف کتنی سیکسی ہے نا۔۔۔”
“ہوں۔۔۔ آں ہاں۔۔۔ ہے تو سہی۔۔۔۔۔۔ لیکن نوجوانی میں تو تمام لڑکیاں اتنی ہی سیکسی ہوتی ہیں۔۔۔” میں نے اسے کریدنے کے لیے کہا گو کہ میں اس کا مطلب اچھی طرح سمجھ رہی تھی۔
“نجمہ! اس کا بدن دیکھا ہے۔۔۔ اسے دیکھ کر تو۔۔۔ یار من مچل جاتا ہے۔۔۔۔۔۔” ندیم نے کچھ اپنا مطلب واضح کرتے ہوئے کہا۔
“اچھا جی۔۔۔! اب یہ بھی بتا دو جانو۔۔۔ کہ جی کیا کرتا ہے۔۔۔۔۔۔؟” میں ہنس پڑی۔۔۔ مجھے پتا تھا وہ کیا کہے گا۔۔۔
“سنو نجمہ۔۔۔! اسے پٹاؤ نا۔۔۔! اسے چودنے کو دل کرتا ہے۔۔۔”
“ہائے ہائے۔۔۔ تم نوکرانی کو چودوگے۔۔۔۔۔۔ پر ہاں۔۔۔ وہ چیز تو چودنے جیسی ہی ہے۔۔۔”
“تو بولو۔۔۔ میری مدد کروگی نا۔۔۔”
“چلو یار۔۔۔ تم بھی کیا یاد کروگے۔۔۔ کل سے ہی اسے تیار کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔”
پھر میں سوچ میں پڑ گئی کہ کیا طریقہ نکالا جائے۔ سیکس تو سبھی کی کمزوری ہوتی ہی ہے۔ مجھے ایک ترکیب سمجھ میں آئی۔
دوسرے دن صدف کے آنے کا وقت ہو رہا تھا۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنے ٹی وی پر ایک بلیو اردو فلم لگا دی۔ اس فلم میں چدائی کے ساتھ اردو ڈائیلاگ بھی تھے۔ صدف کمرے میں صفائی کرنے آئی تو میں باتھ روم میں چلی گئی۔ صفائی کرنے کے لیے جیسے ہی وہ کمرے کے اندر آئی تو اس کی نظر ٹی وی پر پڑی۔۔۔ چدائی کے سین دیکھ کر وہ کھڑی رہ گئی۔ اور سین دیکھتی رہی۔
میں باتھ روم سے سب دیکھ رہی تھی۔ اسے میرا ویڈیو پلیر نظر نہیں آیا کیونکہ وہ لکڑی کے کیس میں تھا۔ وہ دھیرے دھیرے قریب پڑے بیڈ پر بیٹھ گئی۔ اسے مووی دیکھ کر مزا آنے لگ گیا تھا۔ چوت میں لنڈ جاتا دیکھ کر اسے اور بھی زیادہ مزا آ رہا تھا۔ دھیرے دھیرے اس کا ہاتھ اب اس کی چھاتیوں پر آ گیا تھا۔۔۔ وہ گرم ہو رہی تھی۔ میری ترکیب کارگر ثابت ہو رہی تھی ۔ میں نے موقع مناسب جانا اور باتھ روم سے باہر آ گئی۔۔۔
“ارے۔۔۔ ٹی وی پر یہ کیا آنے لگا ہے۔۔۔”
“باجی۔۔۔ بھائی تو ہیں نہیں۔۔۔ چلنے دو نا۔۔۔ ہم ہی تو ہیں۔۔۔”
“ارے نہیں صدف۔۔۔ اسے دیکھ کر دل میں کچھ ہونے لگتا ہے۔۔۔” میں مسکرا کر بولی
میں نے چینل بدل دیا۔۔۔ صدف کے دل میں ہلچل مچ گئی تھی۔۔۔ اس کے جوان جسم میں شہوت نے جنم لے لیا تھا۔
“باجی۔۔۔ یہ کس چینل سے آتا ہے۔۔۔”اس کی ہوس بڑھ رہی تھی۔
“ارے تمہیں دیکھنا ہے نا تو دن کو فری ہو کر آنا۔۔۔ پھر اپن دونوں دیکھیں گے۔۔۔ ٹھیک ہے نا۔۔۔”
“ہاں باجی۔۔۔ تم کتنی اچھی ہو۔۔۔” اس نے مجھے جوش میں آکر پیار کر لیا۔ میں نڈھال ہو گئی۔۔۔ آج اس کی چمی میں سیکس تھا۔ اس نے اپنا کام جلدی سے نمٹا لیا اور چلی گئی۔ میرا تیر نشانے پر لگ چکا تھا۔
تقریباً دن کے ایک بجے صدف واپس آ گئی۔ میں نے اسے پیار سے بیڈ پر بٹھایا اور نیچے سے کیس کھول کر پلیر میں سی ڈی لگا دی اور میں خود بھی بیڈ پر بیٹھ گئی۔ یہ دوسری فلم تھی۔ فلم شروع ہو چکی تھی۔ میں صدف کے چہرے کا رنگ بدلتے دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں شہوت کے ڈورے تیرنا شروع ہو رہے تھے۔ میں نے تھوڑا اور انتظار کیا۔۔۔ چدائی کے سین چل رہے تھے۔
میرے جسم میں بھی شہوت جاگ اٹھی تھی۔ صدف کا بدن بھی رہ رہ کر جھٹکے کھا اٹھتا تھا۔ میں نے اب دھیرے سے اس کی پیٹھ پر ہاتھ رکھا۔ اس کی دھڑکنیں تک محسوس ہو رہی تھیں۔ میں نے اس کی پیٹھ سہلانی شروع کر دی۔ میں نے اسے آہستگی سے اپنی جانب کھینچنے کی کوشش کی۔۔۔ تو وہ مجھ سے چپک گئی۔ اس کا کسا ہوا بدن۔۔۔ اس کے بدن کی خوشبو۔۔۔ مجھے محسوس ہونے لگی تھی۔ ٹی وی پر شاندار چدائی کا سین چل رہا تھا۔ صدف کا دوپٹہ اس کے سینے سے نیچے گر چکا تھا۔۔۔ اس کے پستانوں کا سائز 28 سے زیادہ نہیں ہو گا۔۔۔ میں نے دھیرے سے اس کی چھوٹی چھوٹی مخروطی چھاتیوں پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ اس نے میرا ہاتھ اپنے پستانوں کے اوپر ہی دبا دیا اور سسک پڑی۔
“صدف! کیسا لگ رہا ہے بیٹی۔۔۔؟”
“باجی۔۔۔ بہت ہی اچھا لگ رہا ہے۔۔۔ کتنا مزا آ رہا ہے۔۔۔” کہتے ہوئے اس نے میری طرف دیکھا۔۔۔ میں نے اس کی چونچیاں سہلانی شروع کر دی۔۔۔ اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔
“بس باجی۔۔۔ اب اور نہیں کریں۔۔۔”
“ارے پگلی! مزے لے لے۔۔۔ ایسے موقعے بار بار نہیں آتے ہیں۔۔۔۔۔۔” اور اسے کچھ بولنے کا موقعہ دیے بغیر میں نے اس کے تھرتھراتے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔۔۔ صدف ہوس سے بھری ہوئی تھی۔ اب صدف نے میری 36 سائز کی تنی ہوئی گول گول چھاتیوں کو اپنے ہاتھوں میں بھر لیا اور دھیرے دھیرے انہیں دبانے لگی۔ مجھے بھی بے حد مزا آ رہا تھا۔ میں نے اس کی شلوار کو آہستگی سے نیچے کی جانب کھینچا تو یہ جان کر بے حد خوشی ہوئی کہ اس نے شلوار میں الاسٹک ڈالا ہوا تھا یعنی میرا کام مزید آسان ہو گیا۔ میں نے کھینچ کر اس کی شلوار نیچے کر دی اور اس کی قمیض کا دامن اوپر اٹھا دیا۔۔۔ آہ اس کی رانیں دودھیا رنگت کی تھیں اور پیٹ بے حد ستواں اور پتلا تھا۔۔۔ میں اس کی چکنی رانوں کو ہاتھ سے آہستہ آہستہ سہلانے لگی۔۔۔ اب میرے ہاتھ دھیرے دھیرے اس کی چوت پر آ چکے تھے جو چکنائی اور پانی چھوڑ رہی تھی۔ میں نے اپنی ایک انگلی آہستگی سے اس کی چوت کے تنگ سوراخ میں سرکائی۔ اس کی چوت کے اندر میری انگلی جاتے ہی صدف مجھ سے لپٹ گئی اور مجھے لگا کہ میرا کام ہو گیا۔
“باجی۔۔۔ ہائے۔۔۔ نہیں کرو نا۔۔۔ ماں۔۔۔ رے۔۔۔”
“کیسا لگ رہا ہے صدف؟
“آہ ہ ہ ہ ہ باجی بس کریں نا آہ ہ ہ ہ۔۔۔”
میں نے اس کی چوت کے دانے کو ہلکے ہلکے سے ہلانے لگی۔۔۔۔ وہ نیچے جھکتی جا رہی تھی۔۔۔ اس کی آنکھیں نشے میں بند ہو رہی تھی۔
ادھر ندیم لنچ پر آ چکا تھا۔ اس نے اندر کمرے میں جھانک کر دیکھا۔ میں نے اسے اشارہ کیا کہ ابھی رکو۔ میں نے صدف کو اور سیکسی کرنے کے لیے اسے کہا – “صدف۔۔۔ آؤ گڑیا میں تمہارا بدن سہلا دوں۔۔۔۔۔۔ کپڑے اتار دو۔۔۔ شاباش!”
“باجی۔۔۔ اوپر سے ہی میرا بدن دبا دیں نا۔۔۔” وہ بستر پر لیٹ گئی اور میں اس کی ننھی منی چھاتیوں کے ابھاروں کو دباتی رہی۔۔۔ اس کی سسکیاں بڑھتی رہی۔۔۔ میں نے اب اس کی بڑھتی ہوئی ہوس دیکھ کر اس کی قمیض بھی اتار دی۔۔۔ اس نے کچھ نہیں کہا۔۔۔ میں نے بھی یہ دیکھ کر اپنے کپڑے فوراً اتار دیے اور بالکل ننگی ہو گئی۔ اب میں اس کی چوت کو اپنی انگلی سے دبا کر سہلانے لگی۔۔۔ اور دھیرے سے ایک انگلی اس کی چوت میں ڈال دی۔ اس کے منہ سے لذت بھری سسکاریاں نکل پڑیں۔۔۔
“صدف۔۔۔ ہائے کتنا مزا آ رہا ہے۔۔۔ ہے نا۔۔۔”
“ہاں باجی۔۔۔ ہائے رے۔۔۔ میں مر گئی۔۔۔”
“صدف! لنڈ سے چدواؤ گی؟ بہت مزا آئے گا۔۔۔”
“کیسے باجی۔۔۔؟ لنڈ کہاں سے لاؤ گی۔۔۔؟”
“اگر تم کہو تو ندیم کو بلا لوں۔۔۔ تمہیں چود کر مست کر دے گا”
“نہیں باجی۔۔۔ نہیں۔۔۔ بھائی سے نہیں۔۔۔”
“اچھا تم الٹی لیٹ جاؤ۔۔۔ اب پیچھے سے تمہارے چوتڑ بھی مسل دوں۔۔۔”
وہ الٹی لیٹ گئی۔ میں نے اس کی چوت کے نیچے تکیا لگا دیا۔ اور اس کی گانڈ اوپر کر دی۔ اب میں نے اس کے دونوں پاؤں پھیلا کر ٹانگیں چوڑی کر دیں اور اس کی گانڈ کے چھید پر اور اس کے آس پاس ہولے ہولے سہلانے لگی۔ وہ لذت سے سسکاریاں بھرنے لگی۔
ندیم دروازے کے پاس کھڑا ہوا سب دیکھ رہا تھا۔ اس نے اپنے کپڑے بھی اتار لیے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر ندیم کا لمبا لنڈ ایک دم تن چکا تھا اور وہ اپنے لنڈ کو ہاتھ سے اوپر نیچے کر رہا تھا۔ میں صدف کی گانڈ اور چوتڑوں کو پیار سے سہلا رہی تھی۔ اس کی ہوس بے حد بڑھ چکی تھی۔ تب میں نے ندیم کو صدفرا کیا۔۔۔ کہ لوہا گرم ہے۔۔۔۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔
ندیم دبے پاؤں اندر آ گیا۔ میں نے صدفرا کیا کہ بس اب تم اس بچی کو چود ڈالو۔ صدف کی پھیلی ہوئی ٹانگوں کے درمیان کھلی ہوئی گوری چٹی ٹائٹ چوت ندیم کو نظر آ رہی تھی۔ یہ دیکھ کر اس کا لنڈ اور بھی تننے لگا۔ تب تک ندیم اس کی ٹانگوں کے بیچ میں آ گیا۔ میں صدف کے پیچھے آ گئی۔۔۔ جسے اب تک معلوم ہی نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ ندیم نے صدف کے چوتڑوں کے پاس آکر لنڈ کو اس کی چوت پر رکھ دیا۔ صدف کو فوراً ہی ہوش آ گیا۔۔۔ لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔ ہم میاں بیوی نے مل کر اسے اپنے ہاتھوں میں جکڑ کر قابو کر لیا تھا اور ندیم اس کے چوتڑوں سے نیچے لنڈ اس کی چوت پر ٹکا چکا تھا اور اس کے نازک بازوؤں کو اپنے مضبوط ہاتھوں میں کس لیا تھا اور اس کے نازک جسم کو اپنے ورزشی بدن کے نیچے دبا کر قابو کر چکا تھا۔
صدف چیخ اٹھی۔۔۔ پر تب تک ندیم کا ہاتھ اس کا منہ دبا چکا تھا۔ ادھر میں نے اپنے ہاتھوں میں لے کر ندیم کا موٹا لمبا لنڈ صدف کی چوت کے عین اوپر رکھ دیا تھا۔ ندیم حرکت میں آ گیا۔
اس کا لنڈ اس بچی کی ننھی سی چوت کو چیرتا ہوا اندر تک گھس گیا۔ درد کے مارے صدف کے منہ سے غوغیانے کی آوازیں نکل رہی تھیں اور وہ بستر پر تڑپ رہی تھی اور ندیم کے نیچے سے نکل بھاگنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس کی چوت گیلی تھی۔۔۔ چکنی تھی۔۔۔ لیکن ابھی تک چدی نہیں تھی۔ دوسرے ہی دھکے میں لنڈ اندر گہرائی میں اترتا چلا گیا اور صدف کی آنکھیں درد کی شدت سے پھٹی جا رہی تھی۔ غو غو کی آوازیں نکل رہی تھی۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے زور لگا کر میرا ہاتھ اپنے منہ سے ہٹا لیا اور زور زور سے بلک کر رونے لگی۔۔۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے اور چوت سے خون ٹپک رہا تھا۔
“بھااااااااااااائی۔۔۔ چھوڑ دیں مجھے ےےےےے۔۔۔ آآآآہہہ میرے ساتھ ایسے نہ کریں۔۔۔ ہائے ےےےے میں مر جاؤں گی۔۔۔ باجی! آپ مجھے بچا لیں۔۔۔” اس نے منت بھرے انداز میں روتے ہوئے کہا۔ پر لنڈ اپنا کام کر چکا تھا۔
“بس بیٹی۔۔۔ بس۔۔۔ تھوڑا سا برداشت کر لو۔۔۔ ابھی سب ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ رو مت۔۔۔” میں نے اسے پیار سے پچکارتے ہوئے سمجھایا کیونکہ مجھے اندازہ تھا کہ وہ کس قدر درد سے گزر رہی ہو گی۔
“نہیں نہیں بس۔۔۔ بس باجی مجھے چھوڑ دیں اب۔۔۔ میں تو برباد ہو گئی باجی۔۔۔ آپ نے یہ کیا کر دیا۔۔۔” وہ نیچے دبی ہوئی تڑپتی اور روتی جا رہی تھی اور ہماری منتیں کر رہی تھی لیکن ہم دونوں نے مل کر اسے دبوچ رکھا تھا۔ دبی دبی چیخیں اس کے منہ سے نکلتی رہی لیکن ہم پر ان درد بھری چیخوں کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تھا۔ ندیم نے اپنے ڈنڈے نما لنڈ کو دھیرے دھیرے اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔
“بھائی۔۔۔ بس کریں نا۔۔۔ مجھے چھوڑ دیں نا۔۔۔ میں برباد ہو گئی۔۔۔۔۔۔ ہائے۔۔۔ کوئی مجھے بچا لو۔۔۔ ہائے میں آج مر جاؤں گی۔۔۔ بھائی۔۔۔ بھائی۔۔۔ بسسس۔۔۔ باجی۔۔۔ آہ آہ آہ۔۔۔ آپ روک دیں نا بھائی کو۔۔۔ آہ ہ ہ۔۔۔ میں مر گئی ہائے۔۔۔ ” وہ بری طرح روئے جا رہی تھی۔۔۔ اور منتیں کرتی رہی۔ لیکن اس دوران ندیم نے اس کی چونچیاں بھی بھینچ لی۔ وہ ہائے ہائے کرکے روتی رہی۔۔۔ وہ اپنے بدن کو تڑپ تڑپ کر ہلتے ہوئے نیچے سے نکلنے کی کوشش کرتی رہی لیکن ندیم کے جسم اور ہاتھوں میں بری طرح سے دبی ہوئی تھی۔ آخر کار اس نے خواہ مخواہ کی کوششیں ترک کر دیں اور بس نڈھال ہو کر بری طرح چیختی چلّاتی اور روتی رہی۔
ندیم نے اپنی چدائی اب تیز کر دی۔۔۔ اس کا کنواراپن دیکھ کر ندیم اور بھی سیکسی ہوتا جا رہا تھا۔ اس کے دھکے وحشیانہ پن پر آ گئے تھے اور صدف بے چاری نیچے دبی ہوئی سسکتی بلکتی جا رہی تھی۔ کچھ دیر بعد صدف کا رونا اور بلکنا کچھ کم ہو گیا۔۔۔ اور اندر ہی اندر شاید اسے مستی چڑھنے لگی۔۔۔ لیکن وہ سسکتی رہی۔۔۔
“ہائے باجی میں لٹ گئی۔۔۔ میری عزت لٹ گئی۔۔۔ باجی میں برباد ہو گئی۔۔۔ بھائی مجھے چھوڑ دیں۔۔۔ اب بس کر دیں بھائی۔۔۔ ہائے” وہ بس آنکھیں بند کیے یہی بولتی جا رہی تھی۔۔۔ اس کے نیچے پڑا تکیہ خون سے بھیگ چکا تھا۔ اب ندیم نے اس کی چونچیاں پھر سے پکڑ لیں اور انہیں زور زور سے دباتے ہوئے صدف کو چودنے لگا۔ صدف اب کسی حد تک خاموش ہو گئی تھی۔۔۔ شاید وہ سمجھ چکی تھی کہ اس کی جھلی پھٹ چکی ہے اور اب بچنے کا بھی کوئی راستا نہیں ہے۔ لیکن اب اس کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ بھی مزا لے رہی ہے۔ اب میں نے بھی چین کی سانس لی۔
میں نے دیکھا کہ ندیم کا لنڈ خون سے سرخ ہو چکا تھا۔ صدف کی کنواری چوت پہلی بار چد رہی تھی اوراس کی ٹائیٹ چوت کے جکڑنے کا اثر یہ ہوا کہ ندیم جلد ہی چھوٹنے والا ہو گیا۔ اچانک نیچے سے صدف کی سسکاری نکل پڑی اور وہ جھڑنے لگی۔ ندیم کو لگا کہ صدف کو اب مزا آنے لگا تھا اور وہ اسی وجہ کارن سے جھڑ گئی تھی۔
مجھے لگا کہ ندیم اب چھوتا کہ تب چھوٹا تو میں نے ندیم سے کہا “جانو! بچی کے اندر نہ چھوٹ جانا۔۔۔ کوئی مصیبت کھڑی نہ ہو جائے”۔ یہ سن کر ندیم نے اپنا لنڈ باہر نکال لیا اور صدف کے چوتڑوں پر پچکاری چھوڑ دی۔ ساری منی صدف کے چوتڑوں پر پھیلنے لگی۔ میں نے جلدی سے ساری منی صدف کے چوتڑوں پر پھیلا دی۔ ندیم اب پر سکون ہو چکا تھا۔
ندیم بستر سے نیچے اتر آیا۔ صدف کو بھی چدوانے کے بعد اب ہوش آیا۔۔۔ وہ ویسے ہی لیٹی ہوئی دوبارہ رونے لگی۔
“بس بیٹی اب تو جو ہونا تھا ہو گیا۔۔۔ چپ ہو جاؤ۔۔۔ دیکھو تمہاری خواہش بھی تو پوری ہو گئی نا۔۔۔”
“باجی۔۔۔ آپ نے میرے ساتھ اچھا نہیں کیا۔۔۔ میں اب کل سے کام پر نہیں آؤں گی۔۔۔” وہ لنگڑاتے ہوئے اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے روتے روتے بولی۔۔۔ اس نے اپنے کپڑے اٹھائے اور دھیرے دھیرے انہیں پہننے لگی۔۔۔ میں نے اسے کپڑے پہننے میں اس کی مدد کی۔ اس دوران ندیم بھی کپڑے پہن چکا تھا۔
میں نے ندیم کو صدفرا کیا۔۔۔ وہ سمجھ چکا تھا۔۔۔ جیسے ہی صدف جانے کو مڑی میں نے اسے روک لیا۔۔۔”سنو صدف۔۔۔ ندیم کیا کہہ رہا ہے۔۔۔”
“صدف۔۔۔ مجھے معاف کر دو بیٹی۔۔۔ دیکھو بیٹی تمہیں ننگی لیٹے ہوئے دیکھ کر مجھ سے رہا نہیں گیا۔۔۔ پلیز مجھے معاف کر دو بیٹی۔۔۔”
“نہیں۔۔۔ نہیں بھائی۔۔۔ آپ نے تو مجھے برباد کر دیا ہے۔۔۔ میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی۔۔۔” اس کا چہرا آنسوؤں سے بھیگا ہوا تھا۔
ندیم نے اپنی جیب سے سو سو کے پانچ نوٹ نکال کر اسے دیے۔۔۔ پر اس نے دیکھ کر منہ پھیر لیا۔۔۔ اس نے پھر مزید سو سو کے پانچ نوٹ نکال کر اسے دیے۔۔۔ اس کی آنکھوں میں ایک بارگی چمک آ گئی۔۔۔ میں نے فوراً پہچان لیا۔ میں نے ندیم کے ہاتھ سے نوٹ لیے اور اپنے پرس سے سؤ سؤ کے کل دو ہزار روپے نکال کر اس کے ہاتھ میں پکڑا دیے۔ اس کا چہرا کھل اٹھا۔
“دیکھو۔۔۔ تمہارے بھائی نے غلطی کی اور یہ اس کا حرجانہ ہے۔۔۔ ہاں اگر بھائی سے مزید غلطی کروانی ہو تو اتنے ہی نوٹ اور ملیں گے۔۔۔”
“باجی۔۔۔ میں آپ کی آج سے بہن ہوں۔۔۔ پیسوں کی ضرورت کسے نہیں ہوتی ہے۔۔۔”
میں نے اسے صدف کو گلے لگا لیا۔۔۔ “صدف۔۔۔ بیٹی ہمیں معاف کر دینا۔۔۔ تو سچ میں آج سے میری بہن ہے۔۔۔ آئندہ اگر تمہارا اپنا دل چاہے۔۔۔ بس تبھی یہ کروانا۔۔۔”
صدف خوش ہو کر جانے لگی۔۔۔ دروازے سے اس نے ایک بار پھر مڑ کر دیکھا۔۔۔ اور پھر بھاگ کر آئی۔۔۔ اور مجھ سے لپٹ گئی۔۔۔ اور میرے کان میں کہا “باجی۔۔۔ بھائی سے کہنا۔۔۔ شکریہ۔۔۔”
“اب انہیں بھائی نہیں۔۔۔ بلکہ جیجا جی بولو! اور شکریہ کس لیے۔۔۔؟ پیسوں کے لیے۔۔۔”
” نہیں۔۔۔ ہممم مجھے چودنے کے لیے۔۔۔” وہ یہ کہہ کر واپس مڑی اور باہر بھاگ گئی۔۔۔
میں اسے دیکھتی ہی رہ گئی۔۔۔ تو کیا وہ یہ سب کھیل کھیل رہی تھی۔ میری نظر جونہی میز پر پڑی تو دیکھا کہ سارے کے سارے نوٹ وہیں پڑے ہوئے تھے۔۔۔
اس کے بعد میں نے صدف کی ماں سے بات کر کے اسے اپنے ہاں مستقل اور فل ٹائم نوکرانی رکھ لیا اور پھر ہم ہر رات ہم تینوں یعنی میں، ندیم اور صدف اکٹھے سوتے اور مل کر سیکس کرتے۔
اس کے بعد کیسے ایک رات ندیم نے وحشی بن کر اس بچی کی کنواری گانڈ بھی پھاڑ ڈالی اور کیسے اس دوران وہ بے ہوش ہو گئی۔ پھر کیسے ندیم نے اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر بھی صدف کو زبردستی چودا اور مجھے بھی کیسے اپنے دوستوں کے آگے نچوایا اور ان سب سے ایک ساتھ چدوایا۔۔۔ یہ واقعات آئندہ کبھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تو یہ تھا ہماری کام والی کے ساتھ ہمارے سیکس کا دل چسپ واقعہ جو میری بیوی نجمہ کی زبانی آپ نے پڑھا۔
اگر اسلام آباد یا راولپنڈی کی کسی لڑکی یا عورت کو سیکس کی خواہش ہو تو بلا جھجک مجھ سے میرے ای میل پر رابطہ کر سکتی ہے۔ مکمل رازداری کی ضمانت دیتا ہوں ہے۔۔

KAMMI KI AMMI